Even a blind person can clear UPSC so why not you!
نقی احمد ندوی
کامیابی کوئی ایسی شئے نہیں جو خریدی جاسکتی ہو، ایک کامیاب انسان بننے کے لئے خود ہی محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ مزدور، ورکرس اور نوکر نہیں رکھ سکتے کہ وہ آپ کی جگہ پڑھائی کرے یا آپ کے مشن کو پورا کرے۔ دنیا کا کوئی شخص یہاں تک کہ بادشاہ اور صدر مملکت بھی آپ کو کامیابی کا تمغہ نہیں عطاکرسکتا۔ کتنے بادشاہ گذرے ہیں جن کے شہزادے غربت کی چادر پہنے گلیوں میں بھٹکتے پائے گئے اور کتنے ملکوں کے ایسے صد ر ہیں جن کے بیٹے اور بیٹیوں کو کوئی جانتا تک بھی نہیں۔ کتنے سائنسدان اور علمی شخصیات ہیں جن کی اولاد گمنامی کے اندھیروں میں گم ہیں اور کتنے ایسے غریب اور مزدور کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں جنھوں نے کامیابی کی ایسی تاریخ رقم کی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ امریکہ کے ایک مشہور فلسفی اور مصنف نے بہت سچ کہا ہے کہ
Success is not something you pursue. What you pursue will elude you. It can be like trying to chase butterflies. Success is something you attract and accumulate by the person you become.”– Jim Rohn
کامیابی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے پیچھے آپ بھاگیں۔ جس شئی کا آپ پیچھا کریں گے وہ بھاگے گی، مثلا آپ تتلیوں کا پیچھا کیجئے وہ بھاگتی رہے گی، کامیابی تو وہ چیز ہے جس کو آپ کی شخصیت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ان کو آپ کی شخصیت میں جمع کرتی ہے۔
یعنی کامیابی کوئی خارجی شئی نہیں جسے آپ ڈھونڈتے ہیں بلکہ وہ داخلی شئی ہے جو آپ کی شخصیت کے اندر پیدا ہوتی ہے، جب آپ محنت، لگن اور مشقت کرکے کوئی ہنر، کوئی ایجوکیشن یا کوئی مشن حاصل کرلیتے ہیں تو کامیابی خود بہ خود آپ کے پاس آجاتی ہے۔
ہندوستان میں جتنے بھی مسابقاتی امتحانات ہوتے ہیں ان میں سب سے مشکل امتحان سول سروسز کا امتحان تصور کیا جاتا ہے، جس میں پاس ہونے کے بعد فرسٹ گریڈ کے آفیسر گورمنٹ کے مختلف محکموں کے لئے چنے جاتے ہیں۔ اس امتحان کی تیاری لاکھوں بچے کرتے ہیں مگر کوئی نابینا اس مشکل امتحان کی نہ صرف تیاری کے بارے میں سوچے بلکہ اس کو پاس کرکے حکومت کے اعلی عہدہ پر فائز ہوجائے تو واقعی حیرت اور کمال کی بات ہے۔
جب وہ لڑکا نویں کلاس میں پڑھ رہا تھا تب اس کی آنکھوں کی روشنی کم ہونی شروع ہوگئی۔ مایوسی اور غم نے اسے گھیر لیا، وہ اس خوبصورت دنیا کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ پڑھائی کے لئے آنکھیں درکار ہوتی ہیں اور آنکھیں نہیں تو روشن مستقبل کیسا؟ بچپن کے اس کے حسین خواب ٹوٹتے ہوئے نظر آرہے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا ختم ہوگئی، یک لخت ہر طرف اندھیرا چھاگیا، مگر اس میں اس کے والدین نے ایک ہلکی سی روشنی جلانے کی کوشش کی، تسلی دی، حوصلہ دیا اور زندگی میں کچھ کر گذرنے کی ہمت دی، اس نے دوبارہ اپنی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کی، خود کو سنھبالا اور پھر جیسے ممکن ہو پڑھائی کی شروعات کی
ہماچل پردیش کے سیمور ضلع کے کولار گاوں کے سرکاری اسکول میں پڑھنے والا امیش لبانا پیدائشی اندھا نہیں تھا، جب وہ کلاس نو میں پہونچا تو آہستہ آہستہ اس کی بینائی جانے لگی اور کچھ ہی دنوں میں پوری طرح وہ نابینا ہوگیا وہ اپنی کہانی سناتا ہے:
میں گاؤں میں اپنے دوستوں پر رعب جمانے کے لئے موٹر سائیکل والوں سے اپنی سائیکل سے ریس کیا کرتا تھا۔ جب میں نویں کلاس میں پہونچا تو بینائی پوری طرح جاتی رہی، دسویں اور بارہویں کلاس بھی پوری کرپاؤنگا یا نہیں مجھے بالکل یقین نہیں تھا، میں پڑھائی پوری طرح چھوڑنے والا تھا مگر میرے والد دلجیت سنگھ مجھے کتابیں پڑھ پڑھ کر سنانے لگے، اور میری ماں جو اسکول ٹیچر ہیں وہ میری پڑھائی میں مدد کرنے لگیں۔
میرے والدین نے بہت جگہ کوشش کی کہ میرا ایڈمیشن کہیں ہوجائے یہاں تک کہNational Institute of Visually Handicapped (NIVH جو نابینا کے لئے خاص اسکول دہرادون میں واقع ہے اس میں بھی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اسی دوران مجھے بتا یا گیا کہ نابینا لوگوں کے لئے بریل کتابیں اور ایسے اسکرین آتے ہیں جس کی مدد سے وہ پڑھ سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ مجھے نہان کے ایک نابینا ٹیچر نے ہمت افزائی کی اور صرف تین دنوں میں میرے گھر ہی میں مجھے بریل کتابیں پڑھنے کی ٹریننگ دے دی۔ اس کے بعد میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اومیش لبانا ابھی پی ایچ ڈی میں جے این یو میں زیر تعلیم تھے جہاں سے انھوں نے یو پی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور 397. رینک حاصل کیا۔ وہ IAS کی نوکری جوائن کرنے کے بعد ایسے پروجکٹس پر کام کرنا چاہتے ہیں جو سماج کی نابینا لوگوں کے تئیں نظریہ کو بدلنے میں مد د کرسکے۔
اٹھائیس سالہ کے جے این یو کے نابینا طالب علم کی زندگی ایسے لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو جسمانی معذوری کو اپنی تعلیم میں ایک رکاوٹ محسوس کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے امیش لبانا نے ایک عملی نمونہ پیش کرکے زندگی میں کچھ کر گذرنے کا ایک انتہائی موثر درس دیاہے۔
Comments